About

Follow Me on Twitter

کوریا کہانی

Korea


 

سلام دوستوں  ۔

دوستوں آج میں آپ لوگوں کو شمالی اور جنوبی کوریا کے بارے میں بتانے جا رہاں ہوں ۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ یہ دونوں الگ الگ ملک ہیں لیکن آج سے تقریباً ستر سال پہلے یہ دونوں ملک ایک ملک ہوا کرتے تھے اور ایک حکمران جماعت کے ماتحت ہوتے تھے ۔یاں ایک خاندان کی حکومت ہوا کرتی تھی ، لیکن کوریا کی آزادی پر ہمیشہ ہی سوالیہ نشان بنا رہا۔کبھی چین اسے اپنی ملکیت تو کبھی جاپان کے قبضےمیں چلا جاتا۔ یہ سر زمین بے شمار پراکسی وار کا گڑھ بھی رہ چکا ہے ۔

آج میں آپ لوگوں کو کوریا کی تقسیم کے بارے میں بتانے جا رہاہوں کہ اس کے کیا وجوہات اور اسباب تھے ۔اور یہ بھی بتاونگا کہ کے تقسیم کے بعد دونوں ممالک کے اندرونی حالات کیسے ہیں ۔وہاں کی عوام ایک دوسرے سے یکسر مختلف کیوں ہیں ؟

کوریاں  دراصل بحر الکاحل میں واقع ایک جزیرہ نما ہے ۔یعنی تین اطراف پانی اور ایک خشکی ۔اس جزیرے کی خشکی کا ایک طرف چین اور دوسرا جاپان سے جا ملتا ہے ۔۱۹۰۵ ء میں روس اور جاپان کی جنگ میں  کوریاں پر جاپان  نے قبضہ کر لیا اور ۳۵ سال تک کوریا جاپان کے قبضے میں رہا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔یہ تقسیم دراصل دو مد مقابل سپر پاور امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا نتیجہ تھا ۔جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ کوریا دوسری جنگ عظیم سے پہلے جاپان کے قبضے میں تھا اور دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو شکست ہوئی تھی سو اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کوریا پر اب کس کا قبضہ ہوگا ؟ امریکہ جنگ جیت چکا تھا اس لئے اس کا حق بنتا تھا کہ کوریا پر وہ حکمرانی کریں  لیکن تاریخی واقعہ یہ تھا کہ جاپان کوریا کو روس سے جنگ میں جیتا تھا اس لئے روس کوریا کو اپنی ٹریٹری ڈیکئیر کرنا چاہتا تھا تو دونوں سپر پاور میں کوریا کا میدان بھی ان کی جاری سرد جنگ کا حصہ بن گیا ۔ دونوں میں سے کوئی بھی کوریاں سے پیچے ہٹنا نہیں چاہتا تھا ۔ سو اس رسہ کشی کا نتیجہ کوریا کی تقسیم کی صورت میں نکلا ۔

ایک تاریخ دان مائیکل  روبنسن کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم امریکہ اور روس کے باہمی سمجوتے پر ہوئی تھی اور کوریا کی طرف سے اس سمجھوتے میں کوئی رہنما وغیرہ شامل نہیں تھا یعنی سپر پاور کے دعویدار دو ملکوں نے ایک جیتے جاگتے ملک کے دو ٹکڑے کر دئے ۔اور وہاں کے عوام تو دور کسی نمائندے تک کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا۔

بحر حال روس اور امریکہ کے اس معاہدے کے تحت اگست ۱۹۴۵ کو کوریا کی تقسیم کر دی گئی ۔ اس تقسیم کے بعد ایک حصہ روس جبکہ دوسرا امریکہ کے زیر اثر ہوگیا ۔

اب تقسیم کے بعد اس دو نئے ملکوں میں حکومت بنانے کی باری تھی اگر دنیا کے نقشے میں دیکھے تو نارتھ کوریا کا بارڈر چین کے ساتھ  لگ رہا ہے اس لئے یہاں کمیونزم کا اثر ذیادہ تھا اس لئے اگلے تین سال تارتھ کوریا میں روس نے کمیونسٹ حکومت تشکیل دی جبکہ جنوبی کوریا جو کہ امریکہ کے زیر اثر تھا وہاں فوجی حکومت قائم کردی گئی ۔اس حکومت کو براہ راست امریکہ کی مدد حاصل تھی ۔

بظاہر تو شمالی کوریا میں روس کے حامیوں کی کافی تعداد تھی اور ان کی کمیونسٹ حکومت بھی لوگوں میں کافی مقبول تھی لیکن مڈل کلاس مزدور اور کسانوں نے شمالی کوریا میں رہنے کے بجائے  جنوبی کوریا جانا پسند کیا۔ اس لئے آج بھی جنوبی کوریا کی آبادی شمالی کوریا سے ذیادہ ہے ۔

۲۰۱۹ کےاعداد شمار کے مطابق شمالی کوریا کی آبادی جنوبی کوریا کی آبادی سے تقریباً دوگنی ہے ۔

پچاس کی دھائی میں کوریا کے جزیرے میں خانہ جنگی کا اغاز ہوگیا شمالی اور جنوبی کوریا کے لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اُٹھا لئے ۔ اس لڑائی کی وجہ یہ تھی کہ کون سے لوگ اصل کوریائی ہیں ؟یہ خانہ جنگی تین سال تک جاری رہی اور اس خانہ جنگی میں تقریباً پچیس لاکھ   لوگ لقمہ اجل بن گئے  اس لڑئے کے دوران امریکہ نے شمالی کوریا کے چپے چپے پر خوب بم برسائے ۔ اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً سارا کوریا تباہ ہو چکا تھا ۔ جنگ کا فائدہ کسے ہوتا ہے ؟ ٹھیک اس جنگ بھی کسی کو کچھ  ہاتھ  نہیں آیا ۔

جنگ کے بعد جو تقسیم ہوئی وہ وہی پرانی تقسیم ہی تھی بس ایک کام ہوگیا جو کہ اس جنگ کا نتیجہ تھا دونوں ملکوں کے درمیان ایک ڈی ملٹرائز زون کینچا گیا یہ  زون دونوں حصوں کو الگ الگ کرتا تھا دونوں حصوں کے درمیان ۳۸ ڈگری کی ایک متوازی لکیر کھینچی گئی ۔ ساوتھ کوریا چونکہ امریکہ کے زیر اثر تھا اور امریکی فوج بھی یہی موجود تھی اس لئے ساوتھ کوریا کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہترین تھے جنوبی کوریا نے ایک مستحکم اکانمی تیار کی اور حالیہ دہائیوں میں جنوبی کوریا ایک مکمل جمہوری ملک بننے کی طرف جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف شمالی کوریابالکل اس کے بر عکس ۔

شمالی کوریا میں ایک الگ تلگ خاندانی بادشاہت کا نظام قائم ہے ۔ٓآزادی کے بعد یہاں ایک ہی خاندان کی حکومت ہے یہاں کے پہلے سپریم لیڈر کم آن سم تھے جو ۱۹۴۸ء سے لیکر اپنی وفات ۱۹۹۴ء تک یہاں کے حکمران رہے ان کے وفات کے بعد ان کے بیٹے کم آن کچھ کچھ  اور ان کے وفات کے بعد اب کم جون ان سپریم لیڈر ہے ۔یوں شمالی کوریا پر آزادی کے بعد ایک ہی خاندان کی تیسری نسل حکومت کررہی ہے ۔

عزیز دوستوں !

اگلی قسط میں ہم آپ کو بتائنگے کہ دونوں ملکوں کے سپریم لیڈرز نے اپنے عوام کو کیسے لیڈ کیا؟؟؟؟

 

     



کوریا کہانی کوریا کہانی Reviewed by Wasimdarbar on January 06, 2021 Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.